ایک سنسان گاؤں کے کنارے پر واقع ایک پرانا حویلی تھا، جو برسوں سے خالی پڑا تھا۔ اس حویلی کے بارے میں لوگوں میں کئی کہانیاں مشہور تھیں، کوئی کہتا تھا کہ وہاں بھوت رہتے ہیں، تو کوئی کہتا تھا کہ وہاں کوئی چھپا ہوا خزانہ ہے۔ لیکن ان سب باتوں کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں تھا، کیونکہ کوئی بھی کبھی اس حویلی کے اندر جانے کی
to get more stories click here https://geniuswaveoriginal.com/DSvsl/#aff=usmang50
جرات نہیں کر سکا تھا۔فاطمہ، ایک جوان لڑکی تھی جس کے والدین کا انتقال ہو چکا تھا۔ وہ اپنے چچا کے ساتھ رہتی تھی جو اکثر فاطمہ کو اس حویلی کے قریب جانے سے منع کرتا تھا۔ لیکن ایک دن، جب فاطمہ کے چچا شہر گئے ہوئے تھے، تو فاطمہ نے فیصلہ کیا کہ وہ اس حویلی کے راز کو جاننے کے لیے خود وہاں جائے گی۔
رات کے وقت، جب پورا گاؤں سو رہا تھا، فاطمہ چپکے سے حویلی کی طرف روانہ ہوئی۔ جب وہ حویلی کے قریب پہنچی تو اس کے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی، لیکن اس نے اپنی ہمت جمع کی اور حویلی کے بڑے دروازے کو دھکا دے کر کھولا۔ دروازہ ایک لمبے عرصے بعد کھلا تھا، اور اس سے ایک عجیب سی آواز نکلی۔
اندر داخل ہوتے ہی فاطمہ کو ایک سرد ہوا کا جھونکا محسوس ہوا۔ حویلی کے اندر ہر طرف اندھیرا تھا، صرف چاندنی کی ہلکی سی روشنی اندر آ رہی تھی۔ فاطمہ نے ایک ٹارچ نکالی اور اس کی روشنی میں آگے بڑھنے لگی۔ ہر قدم پر
to get more stories click here https://geniuswaveoriginal.com/DSvsl/#aff=usmang50
اسے لگتا جیسے کوئی اس کا پیچھا کر رہا ہو۔
اچانک، فاطمہ کو ایک کمرے کے دروازے کے پیچھے سے کسی کے سسکنے کی آواز سنائی دی۔ اس کا دل دھک دھک کرنے لگا، لیکن وہ پھر بھی آگے بڑھی۔ جب اس نے دروازہ کھولا تو وہاں ایک بوڑھی عورت بیٹھی تھی، جو اپنے ہاتھوں میں ایک پرانا عکس نما پکڑے ہوئے تھی۔ عورت کے چہرے پر غم کے آثار تھے۔
فاطمہ نے ڈرتے ڈرتے پوچھا، "آپ کون ہیں؟ اور یہاں کیا کر رہی ہیں؟"
بوڑھی عورت نے سر اٹھایا اور کہا، "میں اس حویلی کی اصل مالک ہوں۔ برسوں پہلے، میں نے یہاں اپنے پیارے کا انتظار کرتے کرتے اپنی پوری زندگی گزار دی۔ لیکن وہ کبھی واپس نہیں آیا۔ اب میں اس کا انتظار کرتی ہوں، شاید وہ کبھی لوٹ آئے۔"
فاطمہ کے دل میں اس عورت کے لیے ہمدردی جاگی۔ اس نے سوچا کہ شاید وہ اس بوڑھی عورت کی مدد کر سکے۔ لیکن جب وہ آگے بڑھی تو عورت کی صورت دھندلا گئی اور اچانک غائب ہو گئی۔ فاطمہ کے ہاتھوں میں وہ پرانا عکس نما رہ گیا، جس میں ایک جوان جوڑے کی تصویر تھی۔
فاطمہ سمجھ گئی کہ وہ عورت کوئی عام انسان نہیں تھی، بلکہ اس حویلی کی ایک پرانی روح تھی جو اپنے پیار کی تلاش میں بھٹک رہی تھی۔ فاطمہ نے اس عکس نما کو واپس اس جگہ پر رکھ دیا جہاں سے اس نے اسے اٹھایا تھا اور خاموشی سے حویلی سے باہر نکل آئی۔اس رات کے بعد، فاطمہ نے کبھی اس حویلی کی طرف نہیں دیکھا، لیکن وہ اس بات کو کبھی نہیں بھولی کہ کچھ محبتیں ایسی بھی ہوتی ہیں جو وقت کے ساتھ ختم نہیں ہوتیں، بلکہ ایک ادھوری حقیقت بن کر رہ جاتی ہیں۔
Comments
Post a Comment